خودی کو کر بلند اتنا
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا! تیری رضا کیا ہے؟
مقامِ گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوں
یہی سوزِ نفس ہے اور یہی میری دوا کیا ہے؟
نگاہِ فقر میں شان و شوکتِ اہلِ جاہ کیا؟
مقامِ شوق میں دنیا کی ہر دولت ہے کیا کیا ہے؟
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے!
❤️