

تم سلامت رہو ہزار برس ہر برسکے ہوں دن پچاس ہزار

عشق نے غالبؔ نکما کر دیاورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

یہ جو مہلت جسے کہے ہیں عمردیکھو تو انتظار سا ہے کچھ

.لوگ اکڑ کر ایسے جیتے ہیںجیسے آبِ حیات پیتے ہیں

تجھی پر کچھ اے بت نہیں منحصرجسے ہم نے پوجا خدا کر دیا

جانے کہاں بسے گی تُوجانے کہاں رہوں گا میں

تتلیاں پکڑنے میں دور تک نکل جاناکتنا اچھا لگتا ہے پھول جیسے بچوں پر

سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئیدنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی

موسم زرد میں ایک دل کو بچاؤں کیسےایسی رت میں تو گھنے پیڑ بھی جھڑ جاتے ہیں

وہ کہتے ہیں عشق کی وضاعت کریںہم کہتے ہیں فقط محبوب کی اطاعت کریں